سلگتا دھواں
جانے وہ کون ہیں جو ہر بات پہ رو لیتے ہیں
ہم کو تو حق ہی نہیں، آہ بھی لبوں تک پہنچے
بزم میں جائیں مگر بولو تو کس کی خاطر؟
شمع ہیں اور نہ پروانوں میں نام آتا ہے
ہم تو شاید وہ سلگتا سا دھواں ہیں صاحب
جو کسی اور، کسی طور بھی دکھتا ہی نہیں
ہم مگن پیار کی راہوں پہ بڑھے جاتے ہیں
پھول کی چاہ میں، خوشبو سا بکھر جاتے ہیں
چوٹ لگ جائے گی، غم اس کا بھلا کیا کرنا
ہم تو زخموں کو بھی تمغوں سا سجا لیتے ہیں
شمسہ انور